۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید جاوید عباس مصطفوی

حوزہ/ ہدایت بشریت کے لیے انبیاء و مرسلین کا بھیجا جانا عقلی و نقلی تقاضے کے تحت ضروری تھا لیکن  جب تک ان حضرات کے پاس اپنے دعوے پر کوئی ٹھوس و محکم دلیل نہ ہو تو لوگ انہیں قبول نہیں کرتے لہذا ضرورت اس بات کی تھی کہ اللہ اپنے مبعوث کیے ہوے انبیا ء و رسل کو معجزہ بطور دلیل دے تاکہ وہ منکرین کے سامنے اتمام حجت کر سکے۔ 

تحریر: مولانا سید جاوید عباس مصطفوی،قم المقدس ایران

حوزہ نیوز ایجنسیہدایت بشریت کے لیے انبیاء و مرسلین کا بھیجا جانا عقلی و نقلی تقاضے کے تحت ضروری تھا لیکن  جب تک ان حضرات کے پاس اپنے دعوے پر کوئی ٹھوس و محکم  دلیل نہ ہو تو لوگ انہیں قبول نہیں کرتے لہذا ضرورت اس بات کی تھی کہ اللہ اپنے مبعوث کیے ہوے انبیا ء و رسل کو معجزہ بطور دلیل دے تاکہ وہ منکرین کے سامنے اتمام حجت کر سکے۔ 

چناچہ حضرت موسیؑ نے نبوت کا  اعلان کیا: 
وَقَالَ مُوسَىٰ يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ(اعراف۱۰۴)
اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون میں رب  العالمین کا  رسول ہوں۔
تو فرعون نے فورا دلیل مانگی:
ققَالَ إِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ(اعراف۱۰۶)
فرعون نے کہا: اگر تم  سچے ہو اور کوئی نشانی لیکر  آئے ہو تو اسے پیش کرو۔
ظاہر ہے وہ  نشانی و حجت معجزہ کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ  یہ دلیل اگر  عاجز  و بے بس کر دینے والی نہ ہو تو   دوسرے لوگ بھی اسے انجام دے سکتے ہیں۔ یو ہر   کس و ناقص کے لیے  نبوت کا دعویٰ آسان ہو جائے گا لیکن  اگر یہ دلیل معجزہ پر منحصر ہو جائے تو جھوٹے دعوداروں کی  قلعی کھل جائے گی ۔اسی لیے ضروری کہ نمائندہ الہی اپنے دعوے کی سچائی کے معجزہ پیس کریں۔

طرز تحریر یا اسلوب بیان
۱۔  جس عہد  میں قرآن نازل ہوا  وہ عہد اگرچہ جاہلیت کے حساب سے بہت پست تھا مگر لسانی ، شعرو ادب کے اعتبار سے بہت بلند تھا ۔  روز مرہ کی زندگی میں شعر و شاعری زبان  ادب کو طرہ امتیاز سمجھا جاتا تھا ۔ بات بات پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہا ئے جاتے تھے۔رزمیہ طربیہ شاعری ،ان کے وجود میں انقلاب برپا کردیتی تھی۔
۲۔  اس  وقت عربوں میں  قصائد  مکتوبات خطابت اور محاورات، یہ چار اسلوب  رائج تھے اس کے علاوہ دوسرے  اسلوب سے  واقف نہ تھے۔
ان چنندہ اسالیب  سے ہٹ کر ایک نیا اسلوب اور  طرز تحریر   ان مفاخر افراد کے سامنے جو اپنے آپ کے  علاوہ دسروں کو گونگا سمجھتے ہوں  پیش  کرنا  قرآن کریم کا ہی معجزہ ہے۔
۳۔  فصحائے و حکمائے کفار مشرکین جو  نور حق کو دیکھ نہیں سکتے تھے لذت وحدت سے ناآشنا تھے مگر اسکے باوجود قرآن کریم کی ادبی و  لسانی خوبیوں  کا اعتراف  کرنے پر  مجبور ہو گئےتھے۔
۴۔ اپنے اسلوب کو قرآن مجید نے سورہ  یوسف کی تیسری آیت میں اس طرح سے بیان کیا ہے
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ(۳)
ہم اس قرآن کوآپ کی طرف وحی کرکے آپ کو بہترین قصہ بیان کرنا چاہتے ہیں اور آپ اس سے پہلے(ان واقعات سے) بے خبر تھے۔
۵۔قرآن کریم شاعرانہ خیالات سے باہر نکل کر نرم لہجہ  اور ناصحانہ انداز اپنایا۔ کیف و سرور کے نغمہ سرائی کے بجائے تدبر و تفکر کے کیف و سرور سے آشنا کریا۔ماضی کی شجاع و شجاعت  کی داستانوں سے نکال کر ماضی کی معتوب زدہ قوموں کی  عبرتناک  داستانین سنا کر انھیں انجام سے باخبر کیا۔  انسان کو  چاند و سورج و ستارہ اور دوسرے طاقتوں کی پرستش سے نکالکر حقیقی خالق و مالک کی طرف متوجہ کرایا تاکہ ظلمت ِجہالت  میں غرق انسان زندگی کی  حقیقتوں سے آشنا ہو اور نور حق کا مشاہدہ کریں ۔
۶۔قرآن سا منفرد انداز آج تک کسی ادب میں پیدا نہ ہو سکا۔عام کتابیں ابواب و فصول پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن قرآن ایسی کسی تبویب و تفصیل سے پاک  رہا اور نہ مختلف مضامین الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے اور نظم کلام و اسلوب بیان میں ایک سلاست و روانی ہے جس کی وجہ سے کہیں پر بھی انقطاع نظر نہیں آتا۔
۷۔ قرآن کریم نے اپنی بعض سورتوں کو  بیان کی وضاحت کی غرض سے حمد و ثنا سے شروع کیا  اور بعض کا اختتام جامع الکلمات پر کیا تو بعض کا نصحتوں پر، کبھی  وعدہ تو کبھی تبشیر کا انداز اپنایا، کبھی کائیانات کی نشانیاں کبھی سابقہ امتوں کے  قصےاور واقعات کبھی حلیت وحرمت کے احکامات کبھی احقاق حق تو کبھی ابطال باطل  وغیرہ ان سب مختلف موضوعات کے با وجود حلاوت دلکشی باقی رہتی ہے اور کہیں  آیات کا ربط متاثر نہیں ہوتا۔
۸۔ قرآن کے بیان کا ا ایک اسلوب یہ بھی  ہے کہ ایک ہی سورت میں  مختلف علم و مضامین ، مطالب و مفاہیم ذکر  کرتا ہے اسکے باوجود تفہیم مطالب میں مشکل نہیں ہوتی اور بے ساختہ روانی اور لطافت باقی رہتی ہے یہاں تک احساس نہیں  ہوتا اور روئے سخن بدل جاتا ہے اور بات بغیر کسی رخنہ کے دل میں  اترتی چالی جاتی ہے
جیسے۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ 
بیشک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد ہوگا۔
 اس مختصر سی سورت جو تین آیاتوں پر مشتمل ہے سب میں احکام مختلف ہیں مگر معنوی اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط معلوم ہوتے ہیں۔
سب سے پہلے عطائے نعمت کا ذکر پھر عبادت کا حکم ہے، آخر میں دشمنوں کے لیے تحدی و چیلنج ہے یا یہ کہا جائے اخبارے غیبی ہے۔
 قارئین اگر توجہ کریں تو  مختلف مطالب  کے باوجود معنوی اتحادوتسلسل کی کیفیت بخوبی نظر آتی ہے۔ طوالت  مضمون  سے محفوظ رہتے ہوئے یہ چند نمونہ تھے جو میں نے پیش کیے اس طرح سے لا تعداد اعجازی پہلو ہیں جو ہماری آنکھوں سے مخفی ہے مگر مرور زمان کے ساتھ ساتھ  انشاء  اللہ ظاہر ہوں گی۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .